لکھنو:18 /اپریل(ایس اونیوز /آئی این ایس انڈیا) ’’ڈاکٹر جمیل جالبی ہمارے دور کے ایک نہایت قدآور ادیب، نقاد ،محقق اور مورخ تھے۔انھوں نے اردو زبان و ادب کی جو گراں قدر خدمات انجام دی ہیں انھیں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔قومی انگریزی اردو لغت اور چار ضخیم جلدوں پر مشتمل تاریخ ادب اردو ان کے شاندار کارنامے ہیں۔ان کی وفات ہم سب اردو والوں کے لیے ایک بڑا خسارہ ہے، ان کی وفات اُردوحلقے کیلئے ناقابل تلافی نقصان۔ ان کے انتقال سے سارے برِصغیر کا ناقابل تلافی نقصان ہے۔‘‘ ان خیالات کا اظہارضیاء اللہ صدیقی ندویؔ نے ڈاکٹر جمیل جالبی کے انتقال پر تعزیتی بیان میں کیا۔مسٹر صدیقی نے مزید کہااردو کے ممتاز نقاد، ماہرِ لسانیات، ادبی مؤرخ کراچی یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر جمیل جالبی کا طویل علالت کے بعدانتقال ہوگیا۔ان کی عمر 89 برس تھی۔جمیل جالبی کا اصل نام محمد جمیل خان تھا ۔وہ علی گڑھ میں 1929 پیدا ہوئے اور وہیں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد1943میں گورنمنٹ ہائی اسکول سہارنپور سے میٹرک کیا، جس کے بعد میرٹھ کالج سے 1945 میں انٹر اور 1947 میں بی اے کی ڈگری حاصل کی۔قیام پاکستان کے بعد جمیل جالبی اور ان کے بھائی عقیل پاکستان آ گئے اور کراچی میں رہائش اختیار کی۔جمیل جالبی نے کالج کی تعلیم کے دوران ہی ادبی دنیا میں قدم رکھ دیا تھا، وہ سید جالب سے بہت متاثر تھے جن کی نسبت سے انہوں نے اپنے نام کے ساتھ جالبی کا اضافہ کیا۔جمیل جالبی کی سب سے پہلی تخلیق سکندر اور ڈاکو تھی جو انہوں نے بارہ سال کی عمر میں تحریر کی اور یہ کہانی بطور ڈراما اسکول میں اسٹیج کیا گیا۔جالبی صاحب کی تحریریں دہلی کے رسائل بنات اور عصمت میں شائع ہوتی رہیں۔جمیل جالبی کی دیگر تصانیف و تالیفات میں تنقید و تجربہ، نئی تنقید، ادب کلچر اور مسائل، محمد تقی میر، معاصر ادب، قومی زبان یک جہتی نفاذ اور مسائل، قلندر بخش جرأت لکھنوی تہذیب کا نمائندہ شاعر، مثنوی کدم راؤ پدم راؤ، دیوان حسن شوقی، دیوان نصرتی وغیرہ شامل ہیں۔جمیل جالبی نے قدیم اردو کی لغت، فرہنگ اصلاحات جامعہ عثمانیہ اور پاکستانی کلچر کی تشکیل بھی ان کی اہم تصانیف ہیں۔انہوں نے متعدد انگریزی کتابوں کے تراجم بھی کیے جن میں جانورستان، ایلیٹ کے مضامین،ارسطو سے ایلیٹ تک شامل ہیں۔بچوں کے لیے ان کی قابل ذکر کتابیں حیرت ناک کہانیاں اور خوجی ہیں ۔